اشفاق احمد فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے سولہ سال کی طلاق شدہ لڑکی سے شادی کر لی۔ اس لڑکی کا پہلے شوہر میں سے ایک بیٹا بھی تھا۔ مگر اس آدمی کو اس لڑکی کے پہلے شوہر نے بتایا کہ یہ بیٹا اس کا نہیں ہے بلکہ ایک ناجائز اولاد ہے۔ یہ سن کر اس آدمی نے بیوی سے کچھ نہ کہا اور چپ رہا۔ وہ بچہ ساری رات روتا رہتا اور ان دونوں کو سونے نہ دیتا۔
ایک رات وہ آدمی بہت تنگ آگیا اور اس نے جیسے ہی روتے ہوئے بچے کو اٹھایا تو اسکی جان نکل گئی کیونکہ وہ بچہ بے حد سرد تھا، جیسے برف کی کسی چٹان پر رکھا ہوا ہو۔ آدمی کی نظریں خوف سے پھیل گئیں، اور اس کا دل تیز تیز دھڑکنے لگا۔ بچے کا جسم مکمل طور پر ٹھنڈا ہو چکا تھا اور اس کے چہرے پر موت کی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔
آدمی نے فوراً بچے کو بیوی کے پاس لے جا کر کہا، “یہ بچہ مر گیا ہے۔” لیکن بیوی کی آنکھوں میں ایک غیر معمولی خاموشی تھی، اور اُس نے کوئی جواب نہ دیا۔ اس کی چپ نے آدمی کو مزید پریشان کر دیا۔
ادھر آدمی کا دل بے چین تھا۔ اُس نے فیصلہ کیا کہ وہ اس معاملے کی تہہ تک پہنچے گا۔ اُس نے بچے کی موت کی تحقیقات کرنے کا ارادہ کیا، لیکن بیوی کی سرد مہری اور خاموشی نے اس کی راہ میں مزید مشکلات کھڑی کر دیں۔
آدمی نے پہلے ہسپتال کا رخ کیا۔ ہسپتال میں پہنچ کر اس نے ڈاکٹرز سے بچے کی موت کی وجوہات معلوم کرنے کی کوشش کی، لیکن کوئی ٹھوس جواب نہیں ملا۔ ڈاکٹرز نے بچے کی جسمانی حالت کا جائزہ لیا اور کہا کہ موت کی وجوہات جانچنے کے لیے پوسٹ مارٹم کی ضرورت ہے۔
پوسٹ مارٹم کے بعد، ڈاکٹرز نے بتایا کہ بچے کے جسم میں کوئی غیر معمولی شواہد نہیں ملے۔ اُن کی رپورٹ نے معاملے کو مزید پیچیدہ بنا دیا کیونکہ رپورٹ میں کوئی واضح وجہ ظاہر نہیں ہوئی۔ آدمی نے فیصلہ کیا کہ وہ اس بات کا پتہ لگائے گا کہ بچے کی موت ایک حادثہ تھی یا کچھ اور۔
آدمی نے اپنی تحقیقات جاری رکھی اور بچے کے والد کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اُس نے معلوم کیا کہ بچے کا والد کچھ عرصہ پہلے ایک خفیہ تنظیم کے ساتھ جڑا ہوا تھا جو غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث تھی۔ یہ تنظیم انسانی تجربات کرتی تھی اور اس کے ارکان عموماً خفیہ زندگی گزارتے تھے۔
آدمی نے ان معلومات کے بعد مزید تحقیق کرنے کا فیصلہ کیا۔ اُس نے خفیہ تنظیم کے بارے میں مزید معلومات جمع کی اور ایک خفیہ تحقیقاتی ایجنسی سے مدد لی۔ تحقیقاتی ایجنسی نے پتا چلایا کہ بچے کے والد نے ایک خفیہ منصوبے کے تحت اپنے بچے کو ایک تجربے کے لئے استعمال کیا تھا۔ یہ منصوبہ انسانی جینز میں تبدیلی کے تجربات سے متعلق تھا، جس میں بچے کا جسم کسی غیر معمولی حالت میں تھا۔
آدمی کی تحقیقات نے ایک بڑا راز افشا کیا کہ بچے کے والد نے دراصل اپنے بچے کو ایک خفیہ تجربے کے لئے استعمال کیا، جس کا مقصد انسانوں کی جین میں تبدیلی کرنا تھا۔ بچے کی موت اس تجربے کی ناکامی کا نتیجہ تھی۔ آدمی نے اس راز کو اپنی بیوی کے سامنے رکھا، تو بیوی نے ہچکچاتے ہوئے اعتراف کیا کہ وہ بھی اس منصوبے میں شامل تھی۔
بیوی نے بتایا کہ بچے کی موت ایک بے شمار پیچیدہ منصوبے کا حصہ تھی، جس میں وہ بھی شامل تھی۔ اس نے کہا کہ وہ جان بوجھ کر بچے کی موت کو چھپانے کی کوشش کر رہی تھی کیونکہ وہ اس بات سے ڈرتی تھی کہ اگر یہ راز افشا ہو گیا تو ان کی زندگی برباد ہو جائے گی۔
بیوی کی سچائی نے آدمی کو حیران کن طور پر صدمے میں مبتلا کر دیا۔ اُس نے سوچا کہ اس نے اپنی زندگی میں کبھی ایسا کچھ نہیں سوچا تھا۔ وہ اس بات کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ کیسے ایک بچے کی موت اتنی پیچیدہ سازش کی بنیاد بن سکتی ہے۔
آخری لمحے میں، آدمی نے فیصلہ کیا کہ وہ اس سچائی کو دنیا کے سامنے لائے گا۔ لیکن یہ فیصلہ اس کے لئے ایک بڑا چیلنج بن گیا کیونکہ اس راز کے افشا کرنے سے نہ صرف اُس کی زندگی بلکہ اس کے اہل خانہ کی زندگی بھی خطرے میں پڑ سکتی تھی۔
آخری قدم کے طور پر، آدمی نے اس بات کا فیصلہ کیا کہ وہ خفیہ تنظیم اور اس کے ارکان کو بے نقاب کرے گا، اور بچوں کے تجربات کو روکنے کے لئے آواز اٹھائے گا۔ اُس نے خفیہ معلومات کو عوامی سطح پر افشا کرنے کی تیاری کی، اور اس دوران اُس نے اپنے اور اپنے اہل خانہ کی حفاظت کے لئے اقدامات کیے۔
یہ راز افشا ہونے کے بعد، آدمی کی زندگی بدل گئی۔ اُس نے دنیا کو ایک بڑا سچ بتایا اور خفیہ تنظیم کے خلاف جنگ چھیڑی۔ اس جنگ میں اُس نے بہت سی مشکلات کا سامنا کیا، لیکن اس نے کبھی ہار نہیں مانی۔ اُس نے اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لئے اپنی تمام تر توانائیاں لگائیں، اور آخر کار اُس نے انسانی تجربات کے خلاف ایک بڑا قدم اٹھایا۔
آدمی کی کہانی ایک مثال بن گئی کہ سچائی کے لئے جنگ کرنا کبھی آسان نہیں ہوتا، لیکن اگر ہم اپنی کوششیں جاری رکھیں تو ہم بڑی تبدیلیاں لاسکتے ہیں۔