میری شادی ایک ایسے شخص سے ہوئی جس کا رنگ بہت کالا تھا، جبکہ میں اپنی خوبصورتی پر فخر کرتی تھی۔ میرے ارد گرد ہر کوئی میری تعریفیں کرتا تھا، اور میرے دل میں ایک عجیب سا احساس تھا کہ میں کسی ایسی زندگی کی مستحق ہوں جہاں میرا ساتھی بھی خوبصورت ہو۔ لیکن تقدیر نے مجھے ایک ایسے شخص کے ساتھ باندھ دیا جس کا رنگ گہرا تھا، اور اُس کی شکل و صورت میرے خوابوں کے مطابق نہیں تھی۔
شروع میں، میں نے اس بات کو قبول کرنے کی کوشش کی کہ محبت ظاہری خوبصورتی پر منحصر نہیں ہوتی، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ میرے دل میں اپنے شوہر کے لیے ناگواری بڑھتی گئی۔ وہ ایک اچھا انسان تھا، لیکن میں کبھی بھی اُس کے رنگ سے مطمئن نہیں ہو سکی۔
جب میں حاملہ ہوئی تو میرے دل میں خوف اور بے چینی کا طوفان مچ گیا۔ میں بار بار سوچتی تھی کہ اگر میرا بچہ بھی اپنے والد کی طرح کالا پیدا ہوا، تو میری خوبصورتی کا کیا ہوگا؟ لوگ کیا کہیں گے؟ میری ساری زندگی میری شکل و صورت کے گرد گھومتی تھی، اور میں یہ برداشت نہیں کر سکتی تھی کہ میرا بچہ بھی اُس رنگ کا ہو جسے میں دل سے پسند نہیں کرتی تھی۔
میں نے کئی راتیں جاگ کر یہ سوچتے ہوئے گزاریں کہ کیسے میں اس بچے کو اپنی زندگی سے نکال دوں۔ ہر بار ایک ہی سوال میرے ذہن میں آتا: کیا میں اپنی خوبصورتی کو قربان کرنے کے لیے تیار ہوں؟ اور ہر بار جواب یہی ہوتا کہ نہیں، میں یہ قربانی نہیں دے سکتی۔
آخرکار، میں نے ایک انتہائی قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ میں نے جان بوجھ کر سیڑھیوں سے گرنے کا منصوبہ بنایا تاکہ میرا بچہ ضائع ہو جائے اور میں اس مسئلے سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا پا لوں۔ وہ دن آیا، میں نے اپنے شوہر کو گھر سے باہر بھیج دیا، اور جیسے ہی موقع ملا، میں سیڑھیوں سے نیچے گر گئی۔
مجھے شدید درد محسوس ہوا، اور چند لمحوں بعد میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ جب مجھے ہوش آیا، تو میں ہسپتال میں تھی۔ میرے اردگرد نرسیں اور ڈاکٹر موجود تھے، اور میرے شوہر کی آواز کانوں میں گونج رہی تھی۔ وہ بہت خوش تھا، اُس نے پورے ہسپتال میں مٹھائی بانٹ دی تھی۔ مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ وہ اتنی خوشی کیوں منا رہا ہے؟ کیا وہ جانتا نہیں کہ میں نے کیا کیا تھا؟
میری طبیعت بحال ہوئی تو میں نے نرس سے پوچھا، “میرا بچہ کہاں ہے؟”
نرس نے مسکراتے ہوئے کہا، “آپ کا بچہ بالکل ٹھیک ہے، اور سب لوگ اُسے دیکھ کر حیران ہیں۔”
یہ سن کر میرا دل دھڑکنے لگا۔ میں سوچ رہی تھی کہ اگر بچہ صحیح سلامت پیدا ہو چکا ہے، تو کیا وہ بھی اپنے والد کی طرح کالا ہوگا؟ میں نے خوفزدہ ہو کر نرس سے کہا، “مجھے میرا بچہ دکھاؤ!”
جب نرس نے میرے بچے کو میری گود میں رکھا، تو جو منظر میں نے دیکھا، اُس نے میرے دل کو دہلا دیا۔ میرے پاؤں تلے زمین نکل گئی۔ میرا بچہ نہ صرف صحت مند تھا، بلکہ اُس کا رنگ اتنا گورا اور چمکتا ہوا تھا کہ میں حیران رہ گئی۔
یہ وہ لمحہ تھا جب میں نے اپنے دل میں ایک عجیب سی شرمندگی محسوس کی۔ میں نے جس رنگت کو ہمیشہ اپنی زندگی کا سب سے بڑا اثاثہ سمجھا تھا، اُسی رنگت کو اپنے بچے میں دیکھ کر میں خوشی اور ندامت کے درمیان پھنس گئی تھی۔ میرا شوہر بہت خوش تھا، اور اُس کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔ اُس نے میرے بچے کو گود میں لے کر کہا، “دیکھو، ہماری محبت کا نتیجہ کتنی خوبصورتی کے ساتھ دنیا میں آیا ہے۔”
لیکن میرے دل میں ایک عجیب سی بےچینی تھی۔ میں نے اپنے آپ سے سوال کیا کہ کیا میری سوچ اتنی غلط تھی؟ کیا میں نے ایک معصوم جان کے ساتھ کھیلنے کی کوشش کی تھی؟ وہ بچے کا رنگ ہو یا اُس کی صحت، میں نے اپنی خودغرضی کی وجہ سے اُسے نقصان پہنچانے کا سوچا۔
پھر ایک دن، جب میں بچے کے ساتھ اکیلی بیٹھی تھی، میرے ذہن میں وہ سب کچھ گونجنے لگا جو میں نے کیا تھا۔ میں نے اپنے بچے کو گود میں اٹھایا اور اُس کے نرم نرم ہاتھوں کو دیکھ کر دل میں ایک عجیب سی محبت محسوس کی۔ وہ بچہ میرے لیے ایک سبق تھا، ایک ایسا سبق جو شاید میں کبھی نہ سیکھ پاتی اگر یہ معجزہ نہ ہوتا۔
وہ لمحہ، جب میں نے اپنے بچے کو پہلی بار دیکھا تھا، اُس لمحے نے میری زندگی کو بدل دیا تھا۔