Moral : The Secrets Behind Her Eyes
ایک دن بیگم بڑے موڈ میں تھی۔ کہنے لگی، “کیا آپ کی کوئی گرل فرینڈ ہے؟”
میں نے کہا، “نہیں۔”
کہنے لگی، “کسی کو آفس میں پسند کرتے ہوں؟”
میں نے کہا، “نہیں۔”
پھر پوچھا، “شادی سے پہلے کوئی افیئر؟”
میں نے کہا، “نہیں۔”
کہنے لگی، “اتنا اچھا لکھتے بولتے ہیں، دِکھنے میں بھی ٹھیک ٹھاک ہیں، یہ کیسے ہو سکتا ہے؟”
میں نے کہا، “لڑکیاں پیسہ چاہتی ہیں، اور میں کسی غیر پر خرچنا نہیں چاہتا تھا۔ اس لیے کسی سے دوستی نہیں کی۔”
پھر پوچھا، “کوئی تو کبھی جوانی میں پسند آئی ہوگی؟”
میں نے کہا، “نہیں۔”
بیگم نے گہری نظروں سے میری طرف دیکھا، جیسے میرے ہر لفظ کا جائزہ لے رہی ہو۔ اُس کی آنکھوں میں سوالات کا سمندر تھا، جو تھمنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ اُس کی پیشانی پر شکنیں واضح ہو گئیں تھیں، جیسے وہ کسی ان دیکھے راز کو جانچنے کی کوشش کر رہی ہو۔ اُس کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ وہ آسانی سے اس بات کو چھوڑنے والی نہیں۔
کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد، وہ دوبارہ بولی، “یہ کیسے ممکن ہے کہ تمہاری زندگی میں کبھی کوئی دلچسپی کا باعث نہ بنا ہو؟ تم بتاتے ہو کہ تمہیں کبھی کسی سے محبت نہیں ہوئی، لیکن میں یقین نہیں کر سکتی کہ تم جیسے شخص کی زندگی میں کبھی کوئی ایسا لمحہ نہ آیا ہو۔”
میں نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ کہا، “یہ بالکل سچ ہے۔ میری زندگی ہمیشہ سے سادہ رہی ہے۔ کبھی کسی لڑکی سے دوستی نہیں کی اور نہ ہی کسی کے لیے دل میں جگہ بنائی۔”
“لیکن تمہاری زندگی میں کچھ خاص نہیں تھا؟ کوئی خواب، کوئی لڑکی جس نے تمہیں حیرت میں ڈال دیا ہو؟” وہ اپنی بات پر قائم رہی۔
اُس کی آواز میں عجیب سی بے چینی تھی، جیسے وہ کسی پوشیدہ حقیقت کو باہر نکالنے کی کوشش کر رہی ہو۔ میں نے گہری سانس لی اور اُس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، “میں جانتا ہوں، تمہیں یہ عجیب لگ رہا ہوگا۔ لیکن سچ یہ ہے کہ میں نے کبھی کسی میں دلچسپی نہیں لی۔ میری توجہ ہمیشہ اپنے کام اور زندگی کے اہم معاملات پر رہی۔”
بیگم نے دوبارہ ایک گہری نظر مجھ پر ڈالی اور ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ بولی، “اچھا، یہ تو مجھے تسلی بخش جواب نہیں لگا۔”
اب اس کی نظروں میں ایک چمک تھی جو مجھے کچھ اور سوچنے پر مجبور کر رہی تھی۔
“تو پھر شادی کیسے ہوئی؟” اُس نے طنزیہ انداز میں پوچھا، “جب تمہیں کبھی کسی میں دلچسپی ہی نہیں ہوئی، تو پھر مجھے کیسے منتخب کیا؟”
یہ سوال میرے لیے غیر متوقع تھا۔ میں نے پلکیں جھپکاتے ہوئے کہا، “جب تمہاری طرف آیا، تو ایسا لگا جیسے دل کے دروازے کھل گئے ہوں۔ تمہیں دیکھ کر مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ محبت کیا ہوتی ہے۔ تم میری پہلی محبت ہو۔”
بیگم کی آنکھوں میں ایک دم نرمی آ گئی، لیکن اُس کی مسکراہٹ میں اب بھی کچھ پوشیدہ تھا۔ وہ میری بات سن کر کچھ لمحوں کے لیے خاموش رہی، پھر بولی، “اچھا، تو تمہیں لگتا ہے کہ تم نے واقعی کبھی کسی کو پسند نہیں کیا، لیکن مجھے تمہارے اندر کچھ عجیب محسوس ہوتا ہے، جیسے تمہیں کوئی پرانی یادیں تنگ کر رہی ہوں۔”
اُس کے اس جملے نے مجھے حیرت میں ڈال دیا۔ میں نے سر ہلاتے ہوئے کہا، “نہیں، ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ تم میرے لیے سب کچھ ہو۔”
“پھر بھی، تمہاری آنکھوں میں کچھ چھپا ہوا لگتا ہے، جیسے کوئی راز ہو جو تمہیں تنگ کر رہا ہو۔”
اُس کے اس جملے نے میرے دل کو دہلا دیا۔ کیا وہ واقعی میرے ماضی کو جانچ رہی تھی، یا یہ محض اُس کی تجسس تھی؟
“تم کیا کہنا چاہتی ہو؟” میں نے دھیمی آواز میں پوچھا۔
“کچھ نہیں، بس کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ تمہارے دل میں کوئی پرانا راز چھپا ہے، جو تم مجھ سے بھی چھپانا چاہتے ہو۔” اُس نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا، جیسے وہ میرے اندر جھانکنے کی کوشش کر رہی ہو۔
میں نے ایک لمحے کے لیے خاموشی اختیار کی، پھر مسکراتے ہوئے کہا، “تمہیں شاید وہم ہو رہا ہے۔” لیکن اندر ہی اندر میرے دل کی دھڑکنیں تیز ہو گئیں تھیں۔ کیا واقعی میرے ماضی کا کوئی بھولا ہوا لمحہ تھا جو میں خود بھی بھول چکا تھا؟
بیگم نے میری بات کو مان تو لیا، لیکن اُس کی آنکھوں میں سوالات کی چمک اب بھی موجود تھی۔ “تم نے ہمیشہ سچ بولا ہے، ہے نا؟” اُس نے آخری سوال کیا، جیسے وہ مجھے ایک آخری موقع دے رہی ہو۔
“بالکل، میں نے ہمیشہ تم سے سچ بولا ہے۔” میں نے پر اعتماد لہجے میں کہا۔
“ٹھیک ہے، پھر مجھے تم پر بھروسہ ہے۔” وہ مسکراتے ہوئے بولی، لیکن اُس کی مسکراہٹ میں اب بھی کچھ تھا جو مجھے بے چین کر رہا تھا۔
اُس رات میں بیگم کے سوالات کے بارے میں سوچتا رہا۔ کیا واقعی میرے ماضی میں کوئی ایسا لمحہ تھا جو میں بھول گیا تھا؟ یا یہ محض اُس کی تجسس کی بنا پر پیدا ہونے والے سوالات تھے؟
رات کے سناٹے میں، میں اپنے ماضی کو یاد کرنے کی کوشش کرتا رہا، لیکن کچھ بھی ایسا یاد نہیں آیا جو اُسے فکر مند کرتا۔ شاید یہ محض اُس کا وہم تھا، یا شاید وہ کسی اور بات کی جانب اشارہ کر رہی تھی۔
میں نے خود کو تسلی دی کہ سب کچھ ٹھیک ہے، لیکن بیگم کی سوالات بھری نظروں نے میری نیند اڑا دی تھی۔