شادی کی پہلی رات تھی، اور میرے دل میں بے شمار خواب اور امیدیں تھیں۔ میں سوچ رہی تھی کہ یہ نئی زندگی خوشیوں اور محبت سے بھرپور ہوگی، جیسے ہر لڑکی اپنی شادی سے پہلے سوچتی ہے۔ لیکن میری یہ خوش فہمیاں اُس وقت چکناچور ہو گئیں جب میرا شوہر اچانک غصے میں آیا، اور بغیر کسی وجہ کے مجھے تھپڑ مار دیا۔ میں حیران و پریشان رہ گئی، اور میری آنکھوں میں آنسو اُمڈ آئے۔
وہ بولا، “میرا بھائی تیری تعریف کر رہا تھا!” یہ سُن کر مجھے مزید صدمہ پہنچا۔ میں نے دل میں سوچا کہ شادی کے پہلے دن ہی اس قدر شک؟ کیا یہی وہ زندگی ہوگی جس کا میں نے خواب دیکھا تھا؟ اُس رات میں نے اپنے دل میں ایک عجیب سا درد محسوس کیا، اور میرا دل خوف سے بھر گیا۔
اگلے دن سے میں نے پردہ کرنا شروع کر دیا تاکہ میرے شوہر کو مجھ پر مزید شک نہ ہو۔ میں نے سوچا کہ شاید پردہ کرنے سے اُس کا شک ختم ہو جائے گا اور ہماری زندگی معمول پر آ جائے گی۔ میں ہر وقت پردے میں رہنے لگی، گھر میں بھی، اور باہر بھی، لیکن پھر بھی وہ مجھ پر شک کرتا رہا۔ ہر بات پر شک، ہر قدم پر الزام، اور ہر روز ظلم کے نئے طریقے۔ اُس کے شک نے میری زندگی کو ایک خوفناک خواب بنا دیا تھا۔
میں نے اپنے شوہر کو خوش رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔ اُس کی ہر بات ماننے لگی، اُس کے ہر حکم پر چلنے لگی، لیکن پھر بھی اُس کا رویہ نہیں بدلا۔ اُس کے شک و شبہات نے ہماری زندگی کو زہر آلود کر دیا تھا۔ میں نے کئی راتیں آنسو بہا کر گزاریں، خدا سے دعا کرتی رہی کہ میرا شوہر بدل جائے، لیکن حالات جوں کے توں رہے۔
کچھ عرصے بعد، میرے شوہر کی طبیعت بگڑنے لگی۔ وہ شدید بیمار ہو گیا، اور اُس کی بیماری نے اُسے بستر سے لگا دیا۔ اس بیماری کے دوران، اُس کے اندر کا غصہ اور شک تھوڑا کم ہو گیا تھا۔ ایک دن، اُس نے مجھ سے کہا، “مجھے معاف کر دو۔ میں نے تم پر بہت ظلم کیا ہے، اور مجھے اب احساس ہو گیا ہے کہ میں غلط تھا۔”
یہ سن کر میرا دل نرم پڑ گیا۔ میں نے سوچا کہ شاید یہ وقت ہے جب میں اپنے دل کو بڑا کر کے اُسے معاف کر دوں۔ اُس کی حالت دیکھ کر میرا دل پگھل گیا، اور میں نے اُسے معاف کر دیا۔ اُس نے مجھے محبت بھری نظروں سے دیکھا اور ہنسنے لگا۔ لیکن اُس کی ہنسی میں کچھ عجیب سا تھا، ایک ایسا انداز جیسے وہ کچھ چھپا رہا ہو۔
پھر اُس نے کہا، “جب میں مر جاؤں تو بستر کا گدا ہٹا کر دیکھنا۔” اُس کی یہ بات سن کر میرا دل دھڑکنے لگا۔ میں نے اُس سے پوچھا، “تم کیا کہنا چاہتے ہو؟” لیکن اُس نے کوئی جواب نہیں دیا، بس خاموشی سے ہنستا رہا۔
دو دن بعد، وہ انتقال کر گیا۔ اُس کی موت نے مجھے حیرت میں ڈال دیا، کیونکہ اُس کی بیماری تو بڑھ رہی تھی، لیکن اتنی جلدی اُس کا جانا کسی کو اندازہ نہیں تھا۔ میں نے اُس کی موت پر دل سے ماتم کیا، کیونکہ وہ میرا شوہر تھا، اور میں نے اُسے زندگی کا ساتھی مانا تھا، چاہے اُس نے میرے ساتھ جیسا بھی سلوک کیا تھا۔
اُس کی موت کے بعد، اُس کی آخری بات میرے ذہن میں گونجتی رہی: “بستر کا گدا ہٹا کر دیکھنا۔” میں نے کئی دنوں تک خود کو روکے رکھا، لیکن پھر ایک دن میں نے ہمت کی اور اُس کے بستر کا گدا ہٹا دیا۔
جو منظر میرے سامنے آیا، اُس نے میرے دل کو دہلا کر رکھ دیا۔ میرے شوہر نے بستر کے نیچے ایک خنجر چھپا رکھا تھا، جس پر میرا نام کندہ تھا۔ اُس نے اپنی آخری سانسوں تک مجھ پر شک کیا تھا۔ وہ مرتے مرتے بھی یہی سوچتا رہا تھا کہ شاید میں اُس کے مرنے کے بعد کسی اور کے ساتھ تعلق بنا لوں گی۔ اُس نے یہ خنجر اس نیت سے رکھا تھا کہ اگر میں اُس کے بعد کسی اور کے قریب جاؤں، تو وہ مرنے کے بعد بھی مجھ پر اپنی گرفت برقرار رکھے۔
یہ دیکھ کر میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ میں سوچتی تھی کہ میں نے اُسے معاف کر دیا، اُس کے ساتھ وفاداری نبھائی، لیکن وہ مرتے دم تک مجھ پر شک کرتا رہا۔ اُس کی نفرت اور شک نے میرے دل کو چیر کر رکھ دیا تھا۔ میں نے سوچا کہ کیا واقعی یہ محبت تھی؟ کیا اُس نے کبھی مجھے سمجھنے کی کوشش کی تھی؟ یا پھر وہ ساری زندگی اپنے اندر کے شک میں مبتلا رہا؟
اُس دن، میں نے فیصلہ کیا کہ میں اپنی زندگی کو اُس شک اور ظلم کے سائے سے باہر نکالوں گی۔ میرے دل میں ایک عجیب سا عزم پیدا ہوا۔ میں نے وہ خنجر اُٹھایا اور اُسے توڑ کر پھینک دیا۔ یہ اُس نفرت اور شک کی علامت تھی جو میرے شوہر نے زندگی بھر میرے ساتھ روا رکھی تھی۔
Title: The Eternal Shadow of Doubt