مفتی طارق مسعود بیان کرتے ہیں کہ ایک بار میرے ایک رشتہ دار کی بیگم دو بیٹیوں کے بعد حاملہ ہوئی تو اُس نے اپنے بیوی کے تمام زیور چوری کر لیے اور طلاق دے کر دبئی بھاگ گیا۔ اُس وقت نہ کسی نے سوال کیا، نہ کسی نے اُسے روکا۔ اُس کا دھیان صرف اپنے فائدے پر تھا اور وہ بےحسی کے ساتھ اپنے خاندان کو چھوڑ کر ایک نئی زندگی کی تلاش میں نکل گیا۔
دس سال گزر گئے۔ ان سالوں میں اُس کی بیوی اور بیٹیاں اپنے حال پر چھوڑ دی گئیں۔ بیوی نے سسرال سے مدد کی درخواست کی، لیکن انہیں بھی امید نہ تھی کہ وہ واپس آئے گا، لہذا وہ بھی ہاتھ کھینچ چکے تھے۔ اُنہوں نے کہا، “ہماری کوئی ذمہ داری نہیں بنتی۔”
بیوی نے خود کو سنبھالنے کی کوشش کی۔ وقت نے اُس کے دل کو سخت کیا اور اُس نے اپنے بچوں کے لیے زندگی گزارنی شروع کی۔ اُس نے ہر ممکن کوشش کی کہ اپنی بیٹیوں کو اچھی تربیت دے، لیکن وسائل کی کمی ہمیشہ اُسے پیچھے دھکیلتی رہی۔ وہ کرائے کے ایک چھوٹے سے، خستہ حال گھر میں رہتی تھی جہاں بمشکل ہی وہ اپنی زندگی کا بوجھ اٹھا پاتی تھی۔
دوسری طرف، وہ شخص جو دبئی بھاگ گیا تھا، وہاں اپنی زندگی میں مصروف رہا۔ وہ دنیا کی چکاچوند میں کھو گیا، پیسہ کماتا رہا، لیکن دل میں ایک خلا ہمیشہ موجود تھا۔ اُس نے کئی سالوں تک اپنے خاندان کے بارے میں سوچا بھی نہیں، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ، اُس کا ضمیر جاگنے لگا۔ جب وہ اکیلا ہوتا، تو بیٹیوں کی معصوم شکلیں اُس کے ذہن میں اُبھرتیں، اور دل میں ایک عجیب سی بےچینی پیدا ہوتی۔ اُس نے خود سے کئی بار پوچھا، “کیا میری بیٹیاں مجھے یاد کرتی ہوں گی؟ کیا اُنہیں میری ضرورت ہے؟” لیکن پھر وہ ان خیالات کو جھٹک دیتا اور اپنی زندگی میں واپس مصروف ہو جاتا۔
پھر ایک دن، دس سال بعد، اُسے شدید تڑپ ہوئی کہ اپنی بیٹیوں کو دیکھے۔ وہ بے چین ہو گیا۔ آخر کار، اُس نے فیصلہ کیا کہ وہ واپس پاکستان جائے گا اور اپنی بیٹیوں سے ملے گا۔ جب وہ وطن واپس آیا، تو اُس کا دل خوف اور پشیمانی سے بھرا ہوا تھا۔ وہ اپنے سسرال پہنچا اور اپنے سسر سے بیٹیوں کا پتا پوچھا۔ سسر نے سرد لہجے میں کہا، “تمہاری بیٹیاں اب اُس گھر میں نہیں ہیں۔ وہ فلاں علاقے میں ایک خستہ حال مکان میں رہتی ہیں، اگر اُن سے ملنا ہے تو وہاں جاؤ۔”
اُس شخص کے دل پر ایک بوجھ سا آ گیا۔ اُس نے فوراً اُس پتے کی طرف رُخ کیا جو اُسے دیا گیا تھا۔ جیسے جیسے وہ اُس علاقے کے قریب پہنچتا گیا، اُس کا دل دھڑکنے لگا۔ وہ یہ سوچ رہا تھا کہ کیا اُس کی بیٹیاں اُسے پہچانیں گی؟ کیا وہ اُسے معاف کریں گی؟ یا وہ نفرت کریں گی؟ اُس کے دل میں عجیب سا خوف اور پچھتاوا تھا۔
جب وہ اُس گھر کے سامنے پہنچا، تو اُس کی نظر ایک پرانے، خستہ حال مکان پر پڑی۔ مکان کی دیواروں پر پینٹ اُتر چکا تھا اور دروازے پر ایک پرانا کپڑا لٹکا ہوا تھا جو پردے کی جگہ استعمال ہو رہا تھا۔ اُس کا دل دھک دھک کرنے لگا۔ یہ وہ زندگی نہیں تھی جو اُس نے اپنی بیٹیوں کے لیے سوچی تھی۔
اُس نے ہمت کر کے دروازے پر دستک دی۔ کچھ دیر بعد اندر سے آہستہ آہستہ قدموں کی آواز آئی۔ دروازہ کھلا اور اُس کے سامنے اُس کی بیوی کھڑی تھی، جو وقت کی سختیوں سے بالکل بدل چکی تھی۔ اُس کے چہرے پر مایوسی، تھکاوٹ اور غم کے آثار نمایاں تھے۔ اُس نے اُسے دیکھتے ہی پہچان لیا، لیکن اُس کی آنکھوں میں کوئی خوشی یا حیرانی نہیں تھی۔ اُس کے چہرے پر ایک عجیب سی خاموشی تھی۔
“تم یہاں کیا کر رہے ہو؟” اُس نے خشک لہجے میں پوچھا۔
وہ آدمی کچھ لمحوں کے لیے خاموش رہا، پھر آہستہ سے بولا، “میں اپنی بیٹیوں سے ملنے آیا ہوں۔”
بیوی نے ایک لمبی سانس لی، جیسے وہ اُس کے سوال کا جواب دینے سے پہلے اپنے جذبات کو قابو میں کر رہی ہو۔ پھر اُس نے دروازے کے اندر کی طرف اشارہ کیا اور کہا، “اندر آ جاؤ، دیکھ لو۔”
وہ آدمی اندر داخل ہوا۔ جیسے ہی اُس کی نظر گھر کے اندرونی منظر پر پڑی، اُس کے جسم میں سنسنی دوڑ گئی۔ چھوٹا سا کمرا، جس میں صرف ایک چارپائی رکھی ہوئی تھی اور ایک چھوٹا سا چولہا گوشے میں پڑا تھا۔ کمرے کی دیواروں پر مٹی اور نمی کے نشان تھے، جیسے کئی سالوں سے کوئی مرمت نہ کی گئی ہو۔ کمرے کے کونے میں اُس کی دو بیٹیاں بیٹھی تھیں، جو بہت کمزور اور مرجھائی ہوئی نظر آ رہی تھیں۔ اُن کے چہروں پر غربت اور بےبسی کی جھلک تھی۔
ایک لمحے کے لیے، اُس کے دل میں عجیب سی خوشی اُبھری کہ اُس نے اپنی بیٹیوں کو دیکھ لیا، لیکن پھر حقیقت کا احساس ہوا۔ یہ وہ زندگی نہیں تھی جو وہ اُن کے لیے چاہتا تھا۔ یہ وہ خواب نہیں تھے جو اُس نے اُن کے لیے دیکھے تھے۔
اُس کی بڑی بیٹی، جو اب تقریباً تیرہ سال کی ہو چکی تھی، اُس کی طرف دیکھ کر خاموش رہی۔ وہ اُسے دیکھ رہی تھی، لیکن اُس کی آنکھوں میں کوئی محبت، کوئی امید نہیں تھی۔ صرف سرد مایوسی تھی۔
“بابا؟” چھوٹی بیٹی نے ہچکچاتے ہوئے کہا۔ اُس کی آواز میں معصومیت اور خوف دونوں تھے، جیسے وہ یقین نہیں کر پا رہی ہو کہ وہ واقعی اُس کے سامنے کھڑا ہے۔
اُس آدمی کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ اُس نے آگے بڑھ کر اپنی بیٹی کو گلے لگانا چاہا، لیکن بیٹی پیچھے ہٹ گئی۔ اُس کے دل میں ایک عجیب سی گھبراہٹ اور پشیمانی پیدا ہوئی۔ “میں نے تمہیں چھوڑ دیا تھا،” اُس نے روتے ہوئے کہا، “لیکن میں ہمیشہ تمہیں یاد کرتا رہا ہوں۔”
بڑی بیٹی نے سرد لہجے میں کہا، “یاد کرنا کافی نہیں ہوتا، بابا۔ ہم نے تمہیں ہمیشہ کے لیے کھو دیا تھا۔ تم ہمارے لیے کبھی نہیں تھے۔”
یہ سن کر اُس آدمی کے دل میں چھبتا ہوا درد اُبھر آیا۔ وہ سمجھ چکا تھا کہ اُس کے جانے کا نقصان صرف اُس کی بیوی کو نہیں، بلکہ اُس کی بیٹیوں کو بھی ہوا تھا۔ وہ اُس کی غیر موجودگی میں بڑی ہوئیں، لیکن اُس کی غیر موجودگی نے اُن کے دلوں میں گہرا خلا چھوڑ دیا تھا۔
بیوی نے چپ چاپ دیکھا اور کہا، “یہ ہے تمہاری بیٹیوں کی زندگی۔ یہ ہے وہ قیمت جو ہم نے تمہاری بے حسی کے لیے چکائی ہے۔ اب تم واپس آنا چاہتے ہو، لیکن کیا تم واقعی اُن کے زخم بھر سکتے ہو؟”
وہ آدمی بےبس کھڑا رہا، سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ وہ کیا کہے یا کرے۔ اُس نے اپنی بیٹیوں کے لیے جو خواب دیکھے تھے، وہ اب ٹوٹ چکے تھے۔ اُس کی پشیمانی، اُس کی محبت، سب کچھ اب بےمعنی لگ رہا تھا۔
اُس نے آنسو بھری آنکھوں سے اپنی بیٹیوں کو دیکھا اور دل میں عہد کیا کہ وہ اُن کے لیے کچھ بھی کرے گا، چاہے وہ اُسے معاف کریں یا نہیں۔