میں اپنی بیوی اور ایک ماہ کی بچی کو چھوڑ کر دینی آیا تھا۔ 10 سال گزر گئے، میری بیوی کو کینسر ہو گیا۔ وہ بیچاری میری منت کرتی رہی کہ واپس لوٹ کر آجاؤ مگر میرے سامنے گھر والوں کی مجبوریاں تھیں۔ میری بیوی یوں ہی تڑپ تڑپ کر مر گئی۔ میری 10 سال کی بیٹی نے چاچو کے فون سے چھپ کر مجھے میسج بھیجا کہ بابا واپس آجاؤ ورنہ یہ لوگ مجھ کو بھی مار دیں گے۔ میں جب بنا بتائے پاکستان آیا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ…
میرے قدم جیسے ہی وطن کی مٹی پر پڑے، ایک گھبراہٹ اور اضطراب نے مجھے گھیر لیا۔ دل میں امید اور خوف کی ملی جلی کیفیات تھیں۔ میں فوراً اپنے پرانے گھر کی طرف روانہ ہوا۔ راستے بھر میں دل کی دھڑکن تیز ہوتی جا رہی تھی، اور خیالات کا ایک طوفان میرے دماغ میں اٹھ رہا تھا۔
گھر پہنچ کر میں نے دروازہ کھٹکھٹایا، مگر کوئی جواب نہیں آیا۔ دل کی دھڑکنیں اور تیز ہو گئیں۔ میں نے دروازہ دھکیل کر اندر داخل ہونے کی کوشش کی، اور جب دروازہ کھلا، تو میری آنکھوں کے سامنے ایک منظر تھا جس نے میری روح کو جھنجھوڑ دیا۔ گھر کا اندرونی منظر بالکل تبدیل ہو چکا تھا۔ جگہ جگہ غم کی علامات، چیتھڑے، اور بے ترتیبی نے میرے دل کو دہلا دیا۔
میں نے اندر قدم رکھا، اور ایک اجنبی سی آواز نے مجھے چونکا دیا۔ ایک نوجوان لڑکا جو کہ عمر میں میرے بیٹے جیسا لگ رہا تھا، اس نے کہا، “آپ کون ہیں؟”
میں نے لرزتے ہوئے کہا، “میں اس گھر کا مالک ہوں۔ یہ کہاں ہے؟ میری بیٹی کہاں ہے؟”
لڑکے نے مجھے ایک کمرے کی طرف اشارہ کیا، جہاں پر ایک بوڑھی عورت اور ایک نوجوان لڑکی بیٹھی ہوئی تھی۔ بوڑھی عورت نے مجھے پہچانتے ہوئے کہا، “آپ کی بیٹی یہاں ہے، لیکن وہ بہت زیادہ پریشان ہے۔”
میری بیٹی، جو اب 10 سال کی ہو چکی تھی، وہ مجھے دیکھتے ہی روتے ہوئے میرے گلے لگ گئی۔ میں نے اسے پرسکون کرنے کی کوشش کی، مگر وہ انتہائی خوفزدہ لگ رہی تھی۔ “بابا، مجھے بہت ڈرا رہا ہے۔ وہ لوگ مجھے تنگ کر رہے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ اب کیا کرنا ہے۔”
میں نے بیٹی کو تسلی دی اور پوچھا، “یہ لوگ کون ہیں؟”
بیٹی نے بتایا کہ چاچو اور ان کے بیٹے نے اس گھر پر قبضہ کر لیا ہے اور وہ اسے سوتے وقت مختلف قسم کی تکلیفیں دیتے ہیں۔ وہ اکثر اس سے جھگڑتے ہیں اور اسے مارنے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔
میرے دل میں ایک غمگین سا غصہ ابھرا۔ میں نے فوراً فیصلہ کیا کہ میں اپنی بیٹی کو محفوظ کرنے کے لئے کچھ بھی کروں گا۔ میں نے بوڑھی عورت سے اس معاملے پر مزید معلومات حاصل کیں اور معلوم ہوا کہ چاچو نے اپنی نفرت اور لالچ کی وجہ سے میرے اہل خانہ کو تنگ کرنا شروع کیا تھا۔
میرے دل میں عزم تھا کہ میں اپنی بیٹی کو اس بدترین صورت حال سے نکالوں گا۔ میں نے چاچو کے خلاف قانونی کارروائی کا ارادہ کیا اور پولیس کو اطلاع دی۔ پولیس آئی اور چاچو کے خلاف کیس درج کیا۔ اس دوران، میرے کچھ پرانے دوستوں نے بھی میری مدد کی اور معاملے کو عوامی سطح پر اُٹھایا۔
یہ سب کچھ ہونے کے باوجود، چاچو کے لوگ ہمارے پیچھے تھے اور ہمیں مسلسل دھمکیاں دے رہے تھے۔ میں نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ایک خفیہ منصوبہ بنایا اور چاچو کے گھر پر چھاپہ مارا۔ ہم نے بہت ساری ایسی چیزیں دریافت کیں جو چاچو کے ناجائز کاروبار کی نشاندہی کر رہی تھیں۔
پولیس نے مزید تحقیقات کی اور یہ معلوم ہوا کہ چاچو اور اس کے بیٹے ایک غیر قانونی کاروبار میں ملوث تھے، اور وہ لوگوں کو تنگ کر کے پیسہ کما رہے تھے۔ چاچو کو گرفتار کر لیا گیا اور قانونی کارروائی کا آغاز ہوا۔
چند ماہ بعد، عدالت نے چاچو کو سزا سنائی، اور میری بیٹی اور میں نے سکون کی سانس لی۔ مجھے اپنی بیوی کی موت پر افسوس تھا، لیکن میں نے اپنی بیٹی کے مستقبل کو محفوظ بنانے کی کوشش کی۔ میں نے اسے وعدہ کیا کہ اب وہ محفوظ ہے اور ہم ایک نئے زندگی کا آغاز کریں گے۔
ہم نے مل کر ایک نئی زندگی کا آغاز کیا، اور میں نے اپنے آپ کو اور اپنی بیٹی کو ایک نئے سرے سے زندہ کرنے کی کوشش کی۔ میری بیٹی نے اپنی ماضی کی تکالیف کو بھلایا اور ایک نئی امید کے ساتھ زندگی کی راہ پر گامزن ہوئی۔
یہ سب کچھ ایک لمبی، کٹھن جدوجہد کے بعد ممکن ہوا، لیکن میں نے یہ سیکھا کہ اگر ہم اپنی مشکلات کا سامنا عزم اور بہادری کے ساتھ کریں تو ہم کامیاب ہو سکتے ہیں۔ میری کہانی ایک سبق ہے کہ سچائی اور انصاف کے لئے لڑنا کبھی بھی بے کار نہیں ہوتا، اور ہر مشکل کے بعد ایک نئی امید کی صبح ضرور آتی ہے۔