اعتزاز احسن کہتے ہیں کہ وہ عید الفطر کی صبح تھی۔ سورج ابھی پوری طرح طلوع نہیں ہوا تھا، لیکن گلیاں روشنی سے بھرنے لگی تھیں۔ ہر طرف عید کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔ بچے نئے کپڑے پہنے ہوئے، ہنستے کھیلتے نظر آ رہے تھے، اور مرد حضرات صفائی ستھرائی کے ساتھ عید کی نماز کے لیے تیار ہو رہے تھے۔ میں بھی اسی خوشی اور جوش و خروش میں مسجد کی طرف جارہا تھا کہ اچانک میرے کانوں میں ایک دردناک چیخ سنائی دی۔
یہ چیخ ایک ایسے گھر سے آئی جہاں پہلے کبھی کوئی خاص حرکت نہیں دیکھی تھی۔ یہ ایک پرانا سا مکان تھا، جس کی کھڑکیاں بند اور دروازہ پرانا لگ رہا تھا۔ میں نے رکتے ہوئے آواز پر غور کیا۔ چیخ کے ساتھ ساتھ ایک بچے کے رونے کی آواز بھی آ رہی تھی، اور اُس کے ساتھ ایک عورت کی ہچکیاں تھیں۔ دل میں عجیب سا اضطراب پیدا ہوا۔ یہ عید کا دن تھا، خوشی کا موقع تھا، لیکن یہاں کوئی قیامت کا منظر تھا۔
میں نے سامنے دکان والے سے پوچھا، “یہ کیا ہو رہا ہے؟ یہاں کون رہتا ہے؟” دکان دار نے غمگین انداز میں کہا، “یہ عورت اپنے یتیم بچے کو ہر روز ایسے ہی مارتی ہے۔”
میرے دل کو دھچکا لگا۔ “ہر روز؟” میں نے حیرانگی سے پوچھا۔
“ہاں،” اُس نے سر ہلاتے ہوئے کہا، “یہ یتیم بچہ ہے۔ باپ کئی سال پہلے مر گیا تھا، اور ماں تب سے ایسے ہی ہر روز اسے مارتی ہے اور خود بھی روتی رہتی ہے۔”
یہ سن کر میرا دل بےچین ہو گیا۔ عید کے اس مبارک دن میں، جہاں ہر کوئی خوشیوں میں ڈوبا ہوا تھا، یہ بچہ کیوں عذاب سہ رہا تھا؟ میں نے مزید دیر کیے بغیر اُس گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔
چند لمحے کے بعد دروازہ کھلا، اور جو منظر میں نے سامنے دیکھا، اُس نے میرے ہوش اڑا دیے۔ ایک چھوٹے سے، کمزور سے بچے کو ایک عورت نے پکڑا ہوا تھا، اور وہ اُسے زور زور سے تھپڑ مار رہی تھی۔ بچہ لرزتے ہوئے رو رہا تھا، اُس کی آنکھوں میں خوف اور بےبسی کی جھلک تھی، جیسے وہ اس عذاب کو برداشت کرنے کا عادی ہو چکا ہو۔
عورت کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگا ہوا تھا، وہ خود بھی روتے ہوئے بچے کو مار رہی تھی، جیسے وہ اپنے غم اور تکلیف کو اپنے بچے پر نکال رہی ہو۔ اُس کا حال دیکھ کر مجھے سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ ماں بچے کو مار رہی ہے یا اپنے آپ کو۔ اُس کے ہاتھ لرز رہے تھے، اور چہرے پر ایک عجیب سی کشمکش تھی۔
“رک جاؤ!” میں نے زور سے کہا اور آگے بڑھا۔ “یہ تم کیا کر رہی ہو؟ یہ تمہارا بیٹا ہے!”
عورت نے میری طرف دیکھا، اُس کی آنکھوں میں غصہ، درد اور مایوسی ایک ساتھ تھے۔ “یہ میرا بیٹا ہے،” اُس نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا، “لیکن میں اس سے نفرت کرتی ہوں!”
یہ جملہ میرے لیے ناقابل فہم تھا۔ ماں اپنے بچے سے نفرت کیسے کر سکتی ہے؟ میں نے اُسے کہا، “یہ تمہارا بچہ ہے، تمہاری جان کا ٹکڑا۔ تم اسے کیسے مار سکتی ہو؟”
عورت زمین پر بیٹھ گئی، اُس کے ہاتھ کانپ رہے تھے اور آنسوؤں کا سلسلہ رُکنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ “تم نہیں سمجھو گے،” اُس نے کمزور آواز میں کہا، “یہ بچہ میری بربادی کی وجہ ہے۔”
یہ سن کر میرے دل میں تجسس اور بھی بڑھ گیا۔ “تم کیا کہہ رہی ہو؟ یہ تو تمہارا بیٹا ہے، تمہاری زندگی کی خوشی ہونا چاہیے، نہ کہ بربادی۔”
عورت نے اپنی آنکھوں سے آنسو پونچھے اور بولی، “یہ بچہ میرے لیے ایک سزا ہے۔ جس دن یہ پیدا ہوا، اُس دن میری زندگی تباہ ہو گئی۔”
میں حیران تھا، کیا واقعی کوئی ماں اپنے بچے کو اس طرح دیکھ سکتی ہے؟ میں نے پوچھا، “کیا تم مجھے بتا سکتی ہو کہ آخر مسئلہ کیا ہے؟ شاید میں تمہاری مدد کر سکوں۔”
عورت نے سر جھکا لیا، جیسے وہ کسی گہرے درد کو چھپانے کی کوشش کر رہی ہو۔ “میری شادی زبردستی ہوئی تھی،” اُس نے آہستہ سے کہا، “اور جس شخص سے میری شادی ہوئی تھی، وہ کبھی مجھ سے محبت نہیں کرتا تھا۔ وہ ایک ظالم آدمی تھا، جو مجھے مارا پیٹا کرتا تھا۔ میں نے اُس سے علیحدگی کی بہت کوشش کی، لیکن میری قسمت میں وہ لکھا تھا۔”
عورت کی باتیں سن کر میں خاموش ہو گیا، لیکن ابھی تک سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ اس سب کا بچے سے کیا تعلق تھا۔ میں نے اُس سے پوچھا، “اور تمہارا بچہ؟ اُس کا کیا قصور ہے؟”
عورت نے اپنے بیٹے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، “یہ اُس ظالم انسان کی نشانی ہے۔ جس دن یہ پیدا ہوا، اُس دن میرا شوہر ایک حادثے میں مر گیا۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہ حادثہ اُس کی غلطیوں کی سزا تھی، لیکن میرے لیے یہ بچہ اُس کی یادگار بن گیا۔ جب بھی میں اسے دیکھتی ہوں، مجھے اپنے شوہر کی ظلمت یاد آتی ہے۔”
یہ سن کر میرے دل میں ایک عجیب سا درد اُبھر آیا۔ ماں اپنی نفرت اور تکلیف کو اپنے معصوم بچے پر نکال رہی تھی، جو خود کسی بھی قصور سے پاک تھا۔ میں نے نرمی سے کہا، “یہ بچہ بے قصور ہے۔ وہ تمہارے ماضی کا حصہ نہیں، بلکہ تمہاری زندگی کا نیا آغاز ہو سکتا ہے۔ تمہیں اُسے اپنے دشمن کی نشانی کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیے۔”
عورت نے میری بات سنی، لیکن اُس کے چہرے پر مایوسی اور درد کی جھلک اب بھی واضح تھی۔ “تم نہیں سمجھ سکتے،” اُس نے کہا، “جب میں ہر روز اپنے آپ کو شکستہ دیکھتی ہوں، تو یہ بچہ میری اُس شکست کی یاد دلاتا ہے۔”
میں نے دل میں سوچا کہ اس عورت کی تکلیف واقعی گہری تھی، لیکن یہ بچہ اُس کا دشمن نہیں تھا۔ میں نے اُس سے کہا، “تم نے اپنی ساری زندگی اس درد میں گزاری، لیکن کیا تم چاہتی ہو کہ تمہارا بچہ بھی اُسی درد میں بڑا ہو؟ کیا تم نہیں چاہتی کہ وہ ایک بہتر زندگی گزارے؟”
عورت خاموش ہو گئی۔ اُس کے چہرے پر ایک عجیب سی کشمکش تھی۔ وہ شاید میری باتوں کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی، لیکن اُس کے دل کا زخم اتنا گہرا تھا کہ وہ خود کو اُس سے باہر نہیں نکال پا رہی تھی۔
میں نے اُس کے بیٹے کی طرف دیکھا، جو ابھی تک کانپتے ہوئے کھڑا تھا، آنسو اُس کے گالوں پر بہہ رہے تھے۔ میں نے اُس کے قریب جا کر اُسے گلے لگایا۔ “تم بہت بہادر ہو،” میں نے اُسے کہا، “تمہاری ماں تم سے محبت کرتی ہے، لیکن وہ ابھی اپنے درد سے لڑ رہی ہے۔”
بچہ خاموشی سے میرے سینے سے لگا رہا، جیسے اُس نے پہلی بار کسی کو اپنی حفاظت کے لیے پایا ہو۔ عورت یہ منظر دیکھتی رہی، اور اُس کے چہرے پر ایک نیا احساس ابھرا۔
کچھ دیر بعد، میں نے اُسے نرمی سے کہا، “تمہیں اپنے بیٹے کو ایک نئی زندگی دینی ہوگی۔ ماضی کی زنجیروں سے آزاد ہو کر اُسے محبت اور حفاظت کا احساس دینا ہوگا۔”
عورت کی آنکھوں میں آنسو دوبارہ آگئے، لیکن اس بار اُن آنسوؤں میں مایوسی نہیں، شاید ندامت اور احساس تھا۔ “شاید تم ٹھیک کہہ رہے ہو،” اُس نے کمزور آواز میں کہا، “میں نے ہمیشہ اسے اپنے غم کا ذمہ دار سمجھا، لیکن شاید وہ میری نجات ہو سکتا ہے۔”
یہ سن کر میرے دل میں امید کی ایک کرن جاگ اٹھی۔ میں نے اُسے تسلی دی اور کہا، “یہ بچہ تمہارے لیے ایک نیا موقع ہے، اپنی زندگی کو دوبارہ شروع کرنے کا۔ اگر تم اُسے محبت دوگی، تو وہ تمہاری زندگی کو بدل سکتا ہے۔”
عورت نے آہستہ سے اپنے بیٹے کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ بچہ ہچکچایا، لیکن پھر آہستہ آہستہ اپنی ماں کے پاس آیا۔ ماں نے اُسے اپنے سینے سے لگا لیا، اور دونوں ایک ساتھ رو پڑے۔ یہ آنسو درد اور تکلیف کے نہیں تھے، بلکہ شاید ایک نئی شروعات کے تھے۔
میں نے خاموشی سے وہاں سے رخصت لی، دل میں اس امید کے ساتھ کہ یہ ماں اور بیٹا اب ایک نئی زندگی کا آغاز کریں گے۔