ڈاکٹر صاحب کو ایک دن اسپتال میں ایک یتیم لڑکی نظر آئی، جس کی آنکھوں میں بےبسی اور خاموشی کی کہانی پوشیدہ تھی۔ وہ لڑکی گہرے سیاہ بالوں والی، سادہ مگر باعزت تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے اُس کے متعلق تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ وہ ایک یتیم ہے اور اپنی والدہ کے ساتھ مشکل حالات میں جی رہی ہے۔ اس کی سادگی اور معصومیت نے ڈاکٹر کے دل کو چھو لیا۔
ڈاکٹر صاحب نے اپنی ماں سے بات کی اور اُس لڑکی کو بہو بنانے کی خواہش ظاہر کی۔ ڈاکٹر کی ماں ایک نرم دل عورت تھی اور اُس یتیم لڑکی کو پسند کر لیا۔ وہ فوراً اُس لڑکی کے گھر گئی اور اُس کی ماں سے بات کی۔ ماں کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے کہ اُس کی بیٹی کے لیے اتنا اچھا رشتہ آیا ہے۔ چند دنوں بعد نکاح ہوگیا اور وہ یتیم لڑکی ڈاکٹر صاحب کے گھر کی بہو بن گئی۔
گھر میں خوشیوں کا آغاز ہوا، لڑکی خاموشی سے اپنا سارا وقت گھر کے کام کاج میں لگاتی، اور اپنے شوہر کا دل جیتنے کی کوشش کرتی۔ اُس نے ڈاکٹر صاحب کو اپنا سب کچھ سمجھ لیا تھا، اور اُس کی زندگی کا مقصد بس اپنے شوہر کی خوشی بن گئی تھی۔ وہ شوہر سے بےپناہ محبت کرتی تھی اور اُس کی ہر بات کو دل سے مانتی۔
چند سال گزر گئے اور زندگی میں معمولی سے اتار چڑھاؤ کے باوجود اُن کی ازدواجی زندگی ٹھیک چل رہی تھی۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر صاحب کی توجہ اپنی بیوی سے ہٹنے لگی۔ اسپتال میں ایک لیڈی ڈاکٹر نے اُن کا دل جیت لیا تھا۔ وہ بہت خوبصورت اور پُراعتماد تھی، اور ڈاکٹر صاحب اُس کی شخصیت سے متاثر ہو چکے تھے۔
ایک دن، ڈاکٹر صاحب نے لیڈی ڈاکٹر سے اپنی محبت کا اظہار کر دیا۔ لیڈی ڈاکٹر نے مسکراتے ہوئے کہا، “اگر تم مجھ سے شادی کرنا چاہتے ہو، تو اپنی پہلی بیوی کو طلاق دو، تب ہی میں تمہارے ساتھ نکاح کروں گی۔”
یہ سنتے ہی ڈاکٹر صاحب کے دل میں ایک کشمکش پیدا ہوئی۔ وہ اپنی پہلی بیوی کی محبت اور وفاداری کو جانتے تھے، مگر لیڈی ڈاکٹر کی محبت نے اُن کی عقل کو قابو میں کر لیا تھا۔
آخرکار، ایک دن وہ اپنی بیوی کے سامنے بیٹھے اور کہا، “میں تمہیں طلاق دینے جا رہا ہوں۔”
یہ سن کر اُس کی بیوی کے دل پر جیسے قیامت ٹوٹ پڑی۔ اُس نے روتے ہوئے ڈاکٹر صاحب سے کہا، “مجھے اپنی نوکرانی بنا لو، گھر سے مت نکالو۔ میں تمہیں چھوڑ نہیں سکتی کیونکہ میں تم سے عشق کرتی ہوں۔”
ڈاکٹر صاحب نے سرد لہجے میں کہا، “یہ ممکن نہیں ہے۔”
بیوی نے التجا کی، “مجھے اپنے کلینک کی ملازمہ بنا لو، میں تمہارے واش روم صاف کروں گی، بس مجھے مت چھوڑو۔”
لیکن ڈاکٹر صاحب کا دل سخت ہو چکا تھا۔ اُس نے کسی بھی بات پر کان نہ دھرا اور بیوی کو طلاق دے دی۔ غریب بیوی کا دل ٹوٹ گیا، وہ اپنے آنسو پونچھتی ہوئی گھر سے چلی گئی اور ایک بے یار و مددگار زندگی کی طرف نکل گئی۔
چند دنوں بعد، وہ عورت ملتان کے ایک مشہور مزار میں پہنچی اور وہاں پناہ لی۔ اُس کی حالت بگڑ چکی تھی، اور وہ دن رات وہاں بیٹھ کر اپنی بربادی کا نوحہ پڑھتی رہتی تھی۔ کوئی اُسے پہچان نہیں پاتا تھا، اور وہ دھیرے دھیرے ایک درویش صفت فقیرہ بن گئی۔
10 سال کا طویل عرصہ گزر گیا۔ ڈاکٹر صاحب اپنی نئی زندگی میں مگن ہو چکے تھے، لیکن دل میں ایک خلا تھا جسے وہ کبھی نہیں بھول پائے تھے۔ ایک دن وہ ملتان کے اُسی مزار پر گئے، جہاں ہزاروں لوگ دعائیں مانگنے اور اپنی مرادیں پانے آتے تھے۔
ڈاکٹر صاحب وہاں بیٹھے دعائیں مانگ رہے تھے کہ اچانک اُن کی نظر ایک بوڑھی، کمزور عورت پر پڑی، جو اُن کے سامنے سے گزر رہی تھی۔ وہ بہت خستہ حال اور بوسیدہ کپڑوں میں ملبوس تھی، مگر اُس کے چہرے کی جھریوں اور آنکھوں کی گہرائی میں ایک عجیب سی پہچان تھی۔
ڈاکٹر صاحب کو لگا کہ وہ کہیں اُس چہرے کو جانتے ہیں، مگر وہ یاد نہیں کر پا رہے تھے۔ اچانک اُس عورت نے ایک درویشانہ انداز میں اُن کی طرف دیکھا اور ایک دم اُن کی چیخ نکل گئی۔
وہ عورت کوئی اور نہیں، بلکہ وہی پہلی بیوی تھی جسے اُنہوں نے ایک دہائی پہلے بےوفائی کے ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کی آنکھوں کے سامنے اُس کی محبت، اُس کی وفاداری، اور اُس کے ٹوٹے ہوئے دل کی تصویر گھومنے لگی۔ اُنہیں اُس لمحے اپنی غلطی کا احساس ہوا، مگر وقت کا پہیہ پلٹ نہیں سکتا تھا۔
وہ عورت، جو اب دنیا کے لیے ایک فقیرہ بن چکی تھی، نے اپنی زندگی کی قربانی دے دی تھی، اور ڈاکٹر صاحب اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی کو ہمیشہ کے لیے اپنے دل میں لیے واپس لوٹ گئے۔
Moral : “A Decade of Regret”