Story Of Dr Momina Ultrasound Little Girl

مومینہ نے الٹراساؤنڈ کی رپورٹ ہاتھ میں تھام رکھی تھی، اس کی نظریں بار بار کاغذ پر

لکھی گئی تفصیلات پر جا رہی تھیں۔ ماں سامنے بیٹھے بےچین ہو رہی تھی، اس کی سانسیں تیز تھیں، اور چہرے پر الجھن کی پرچھائیاں صاف دکھائی دے رہی تھیں۔ 14 سالہ بیٹی، خاموش اور ساکت بیٹھی تھی، اس کی آنکھیں مسلسل زمین پر جمی ہوئی تھیں، جیسے وہ اس حقیقت کا سامنا کرنے سے قاصر ہو۔

ڈاکٹر نے ایک گہری سانس لی اور اپنی کرسی سے اٹھتے ہوئے رپورٹ کو میز پر رکھ دیا۔ “آپ کی بیٹی حاملہ ہے،” ڈاکٹر مومینہ نے سرد لہجے میں کہا۔ جیسے ہی یہ الفاظ ماں کے کانوں میں پڑے، وہ ایک لمحے کے لیے سکتے میں آگئی۔

“کیا؟” ماں کے ہونٹ کانپتے ہوئے کھلے۔ “یہ کیسے ہو سکتا ہے؟”

بیٹی کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے، اور وہ بری طرح لرزنے لگی۔ اس کے ہاتھ، جن میں وہ اپنی چادر کو زور سے پکڑے بیٹھی تھی، اب مزید طاقت نہیں رکھتے تھے۔ اس کے وجود میں ایک عجیب سی بےچینی پھیل گئی۔

“میری بیٹی… حاملہ؟” ماں نے گھبراہٹ کے عالم میں اپنے ماتھے پر ہاتھ رکھا۔ “لیکن… یہ کیسے؟”

ڈاکٹر مومینہ نے ایک لمحے کے لیے خاموشی اختیار کی، پھر سنجیدگی سے کہا، “اس کی حالت دیکھ کر ہمیں فوری طور پر اقدامات کرنے ہوں گے۔ یہ معمولی بات نہیں ہے۔ یہ بہت سنجیدہ معاملہ ہے۔”

ماں کے چہرے کی رنگت اور بھی زرد ہو گئی تھی۔ وہ اب ڈاکٹر کے چہرے کو بغور دیکھنے لگی، جیسے اس کے جواب میں کوئی اور چھپی حقیقت ہو۔

“کیا میری بیٹی نے… کچھ بتایا ہے؟” ماں نے بےچینی سے پوچھا۔

ڈاکٹر نے ایک ہچکچاہٹ بھری نظر بیٹی کی طرف ڈالی، جو اب بھی زمین کو گھور رہی تھی، پھر سر ہلایا۔ “نہیں، وہ کچھ نہیں بول رہی۔ لیکن ہمیں پولیس کو مطلع کرنا ہوگا، کیونکہ یہ واقعہ کچھ اور ہی کہانی بیان کر رہا ہے۔”

ماں کو لگا کہ جیسے اس کے پاؤں کے نیچے زمین کھسک رہی ہو۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے، اس کی بیٹی، جسے وہ ہمیشہ حفاظت سے پال رہی تھی، کیسے اس مصیبت میں گرفتار ہوگئی؟ اور سب سے اہم سوال یہ تھا کہ، وہ شخص کون تھا جس نے اس کی بیٹی کے ساتھ یہ سب کیا؟

کمرے میں خاموشی چھا گئی تھی، بس دلوں کی دھڑکنیں تیز ہورہی تھیں۔ بیٹی کی حالت نازک تھی، اور اس کے چہرے پر خوف اور گہرے راز کی چھاپ واضح تھی۔

اچانک دروازے پر ایک ہلکی سی دستک ہوئی۔ ماں چونک کر اس جانب دیکھنے لگی۔ دروازہ آہستہ سے کھلا، اور ایک سفید چادر میں لپٹی عورت اندر آئی۔ اس کی عمر درمیانی تھی، اور اس کی آنکھوں میں عجیب سی اداسی جھلک رہی تھی۔ وہ آہستہ قدموں سے آگے بڑھی اور ماں کے قریب جا کر رک گئی۔

“یہ سب کیسے ہوا؟” ماں نے دبی ہوئی آواز میں سوال کیا، آنکھوں میں آنسو لیے۔

عورت نے کچھ دیر خاموشی اختیار کیے رکھی، پھر سر جھکاتے ہوئے بولی، “یہ وہ سوال ہے جس کا جواب سب کو چاہیے۔ لیکن سچ ہمیشہ چھپایا نہیں جا سکتا۔”

بیٹی، جو اب تک خاموش تھی، اچانک کانپتے ہوئے بولی: “ماں، وہ… وہ… وہ شخص…”

ماں نے فوراً بیٹی کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا، جیسے اسے خاموش کروانے کی کوشش کر رہی ہو۔ “نہیں، کچھ مت کہو۔” اس کے دل کی دھڑکنیں اور بھی تیز ہو گئیں۔ اسے اب یقین ہو چکا تھا کہ کوئی بڑی مصیبت بیٹی کے سر پر منڈلا رہی تھی۔

کمرے کی فضا میں خوف اور رازوں کی بوجھل ہوا پھیل چکی تھی۔ ڈاکٹر مومینہ ایک طرف کھڑی سارا منظر دیکھ رہی تھی، اور اس کے چہرے پر گہری فکر کے آثار نمایاں تھے۔

“ہمیں فوراً اس کا معائنہ دوبارہ کرنا ہوگا،” ڈاکٹر نے فیصلہ کن انداز میں کہا اور ماں کی طرف اشارہ کیا کہ وہ بیٹی کو کمرے میں لے جائے۔

ماں نے بیٹی کا ہاتھ پکڑا اور اسے اندر لے جانے لگی۔ دروازہ بند ہوا تو ایک بھاری خاموشی کمرے پر چھا گئی۔ بیٹی کے چہرے پر الجھن اور خوف کی گہرائی تھی، جیسے وہ کسی بھی لمحے سب کچھ بولنے والی ہو۔

پھر اچانک، باہر سے ایک اور دستک ہوئی۔ ماں نے چونک کر دروازہ کھولا، اور جیسے ہی دروازہ کھلا، اس کی آنکھوں کے سامنے ایک جوان آدمی کھڑا تھا، جسے وہ دیکھتے ہی سناٹے میں آگئی۔ اس آدمی کا چہرہ پہچانا ہوا تھا، مگر وہاں اس کی موجودگی نے معاملے کو اور بھی پیچیدہ بنا دیا۔

“تم؟” ماں نے حیرت سے پوچھا۔

آدمی نے چہرے پر عجیب سی مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا، “مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔”

ماں کا دل زور سے دھڑکا۔ کیا یہ وہی شخص تھا جس کے بارے میں وہ سوچ رہی تھی؟ کیا یہ وہی تھا جس نے اس کی بیٹی کو…؟

بیٹی نے آدمی کو دیکھتے ہی خوف سے چیخ ماری، “یہی ہے! ماں، یہ…”

آدمی نے فوراً آگے بڑھ کر بیٹی کو روکنے کی کوشش کی، مگر ماں نے تیزی سے اسے دروازے سے باہر دھکیل دیا اور دروازہ بند کر دیا۔

“یہ کون تھا؟” ڈاکٹر نے تشویش بھری نظروں سے پوچھا۔

ماں نے بےچینی سے آنسو پونچھتے ہوئے کہا، “یہ وہی ہے جو…”

کمرے کی فضا میں رازوں کا بوجھ مزید گہرا ہو گیا تھا۔ کون تھا یہ شخص؟ اور کیا اس کے آنے سے حقیقت کھلنے والی تھی یا معاملہ اور بھی الجھ جائے گا؟ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہ تھا، مگر سب کے دل میں ایک ہی خوف تھا — سچ کا سامنا کیسے کیا جائے؟

اور دروازے کے پیچھے کھڑا وہ آدمی، جو اب اندھیرے میں غائب ہو چکا تھا، ابھی تک اپنی سازشوں کے ساتھ واپس آنے کی تیاری کر رہا تھا۔

Leave a Comment